Friday 31 July 2020

سویا ہوا نصیب جگانے لگا تھا میں

مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
مٹی سے "آسمان" بنانے لگا تھا میں
بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
تصویر سے "غبار" ہٹانے لگا تھا میں
آواز دے کے روک لیا اس نے جس گھڑی
مایوس ہو کے لوٹ کے جانے لگا تھا میں
بھٹکا ذرا جو "دھیان"، مِرے ہاتھ جل گئے
بوسیدہ" کاغذات "جلانے" لگا تھا میں"
افسوس خوابِ مرگ نے مہلت نہ دی شہاب
سویا" ہوا "نصیب" جگانے لگا تھا میں"

شہاب صفدر

No comments:

Post a Comment