موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے
رقصاں ہیں مست مست کناروں کے قافلے
یوں کاروان زیست رواں ہیں کے ساتھ ساتھ
رفتار' میں ہیں 'بادہ' گساروں کے قافلے'
پلکوں پہ جم رہی ہیں غمِ زندگی کی اوس
اس عنبرِیں سی زلفِ پریشاں کو دیکھ کر
بے تاب ہو گئے ہیں چناروں کے قافلے
رک رک کے آ رہی ہیں بہاروں کی نکہتیں
تھم تھم کے چل رہے ہیں نگاروں کے قافلے
محسوس ہو رہا ہے یہ پھولوں کو دیکھ کر
گھبرا کے سو گئے ہیں شراروں کے قافلے
ہے صحن آرزو میں لٹی چاندنی کی دھول
ساغر چلے گئے، مِرے یاروں کے قافلے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment