زخم اپنا سا کام کر نہ جائے
پھر درد کی لے بکھر نہ جائے
جب اس کی نگاہ اس طرف ہے
کیوں میری نظر ادھر نہ جائے
ہے فصلِ جنوں کی آمد آمد
اب مجھ سے نہ مل کہ زہر میرا
نس نس میں تِرے اتر نہ جائے
مدت سے ملا نہیں ہوں اس سے
وہ میرے بغیر مر نہ جائے
ایسا تو نہیں کہ لوٹ جاؤں
اب آگے جو ہمسفر نہ جائے
نقاش کاظمی
No comments:
Post a Comment