ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے
نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے
تو اے بہار گریزاں! کسی چمن میں رہے
مِرے جنوں کی مہک تیرے پیرہن میں رہے
مجھے نہیں کسی اسلوبِ شاعری کی تلاش
نہ ہم قفس میں رکے مثلِ بوئے گل صیاد
نہ ہم 'مثالِ' صبا 'حلقۂ' رسن میں رہے
کھلے جو ہم تو کسی شوخ کی نظر میں کھلے
ہوئے گرہ تو کسی زلف کی شکن میں رہے
سرشکِ رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بارِ مژہ
لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے
ہجومِ دہر میں بدلی نہ ہم سے وضعِ خرام
گِری کُلاہ، ہم اپنے ہی بانکپن میں رہے
یہ حکم ہے رہے مٹھی میں بند سیلِ نسیم
یہ ضد ہے بحرِ تپاں کوزۂ کہن میں رہے
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروح
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment