Thursday 30 July 2020

مجھے عشق کرے مجبور پیا

مجھے عشق کرے مجبور پیا

تُو خواب نگر کا شہزادہ میں حسن نگر کی حُور پیا
تو ارمانوں کی ڈولی لا میں رہ نہ پاؤں دور پیا
نہ پھول کھلے میرے گلشن میں نہ مجھ کو بہار سجھائی دے
میں آئینہ دیکھنے بیٹھوں تو مجھے روپ تیرا ہی دکھائی دے
میں رات کو رووں چھپ چھپ کر
میں دن بھر سوچوں سوچ تیری
مجھے عشق کرے مجبور پیا
الفت کے دریا میں ڈوبی میرا تن من بہہ گیا پانی میں
سرشار ہوئی ہوں بے دردی چاہت کی تیز روانی میں
میں کھانا پینا بھول گئی تیری خواہش میں ہی جھول گئی
مجھے اور کوئی نہ پیاس رہی
تیرے پیار میں ہوں مخمور پیا
مجھے لے جا رتھ میں بٹھلا کر
میں سرخ لباس سجاتی ہوں
تیرے آنے کی ہی آس لگی دروازے پر آتی جاتی ہوں 
یہاں کوئی نہ میرا دردی ہے ہر اک سے ڈر سی جاتی ہوں
کہیں دور جدائی کر نہ دے مجھے اور نہ کر رنجور پیا
میں پیا پیا ہی کرتی ہوں تیرا دم ہر دم ہی بھرتی ہوں
میری روح پاکیزہ رہتی ہے تجھے تسبیح جیسا پڑھتی ہوں
مجھے نام تیرے رب کر دے گا
ہر دم یہ دعا میں کرتی ہوں
تو بول پڑھا مجھے اپنا بنا کر دے تو ہر غم دور پیا

عرفان بزمی

No comments:

Post a Comment