Thursday 30 July 2020

دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں

دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں
بظاہر ہر کسی سے رابطے رکھے ہوئے ہیں
بنام زندگی کچھ قاعدے رکھے ہوئے ہیں
نظر نے اپنے اپنے زاویے رکھے ہوئے ہیں
بڑی تنظیم اور تدریج سے گھائل ہوا ہوں
ستمگر نے ستم کے ضابطے رکھے ہوئے ہیں 
ہمارا تو یہاں پر اور مصرف ہی نہیں ہے
جہاں میں ہم تمہارے واسطے رکھے ہوئے ہیں
مجھے میرے علاوہ کچھ نظر آئے تو کیسے
مِری اطراف میں تو آئینے رکھے ہوئے ہیں
جہاں سے بھی گزرتا ہوں الجھ جاتے ہیں پاؤں
زمیں پر ہر طرف ہی دائرے رکھے ہوئے ہیں
ہمارے کل اثاثے کی کوئی قیمت تو ہو گی
جو کچھ بھی ہے تمہارے سامنے رکھے ہوئے ہیں

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment