دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں
بظاہر ہر کسی سے رابطے رکھے ہوئے ہیں
بنام زندگی کچھ قاعدے رکھے ہوئے ہیں
نظر نے اپنے اپنے زاویے رکھے ہوئے ہیں
بڑی تنظیم اور تدریج سے گھائل ہوا ہوں
ہمارا تو یہاں پر اور مصرف ہی نہیں ہے
جہاں میں ہم تمہارے واسطے رکھے ہوئے ہیں
مجھے میرے علاوہ کچھ نظر آئے تو کیسے
مِری اطراف میں تو آئینے رکھے ہوئے ہیں
جہاں سے بھی گزرتا ہوں الجھ جاتے ہیں پاؤں
زمیں پر ہر طرف ہی دائرے رکھے ہوئے ہیں
ہمارے کل اثاثے کی کوئی قیمت تو ہو گی
جو کچھ بھی ہے تمہارے سامنے رکھے ہوئے ہیں
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment