شکستہ عکس تھا وہ، یا غبارِ صحرا تھا؟
وہ میں نہیں تھا جو خود اپنے گھر میں رہتا تھا
عجیب شرطِ سفر تھی مِرے لیے، کہ مجھے
سیاہ دھوپ میں روشن چراغ رکھنا تھا
نہ جانے کون سے موسم میں جی رہا تھا میں
شجر کی چھاؤں سے باہر ہے رزق طائر کا
وہ ساحلوں پہ نہ ٹھہرا کبھی، جو پیاسا تھا
ہزار "کم سخنی" درمیاں رہی "پھر" بھی
وہ مجھ سے آن ملا تھا، تو رنگ برسا تھا
میں بجھ گیا تو مِرے جسم و جاں کھلے مجھ پر
چراغ اور تھا کوئی جو مجھ میں جلتا تھا
وہ اپنے گھر میں اجالا نہ کر سکا جاذب
تمام رات جو سورج کے خواب رکھتا تھا
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment