Wednesday 29 July 2020

کہ میری پیاس تھی میری نہ میرا دریا تھا

شکستہ عکس تھا وہ، یا غبارِ صحرا تھا؟
وہ میں نہیں تھا جو خود اپنے گھر میں رہتا تھا
عجیب شرطِ سفر تھی مِرے لیے، کہ مجھے
سیاہ دھوپ میں روشن چراغ رکھنا تھا
نہ جانے کون سے موسم میں جی رہا تھا میں
کہ میری پیاس تھی میری، نہ میرا دریا تھا
شجر کی چھاؤں سے باہر ہے رزق طائر کا
وہ ساحلوں پہ نہ ٹھہرا کبھی، جو پیاسا تھا
ہزار "کم سخنی" درمیاں رہی "پھر" بھی
وہ مجھ سے آن ملا تھا، تو رنگ برسا تھا
میں بجھ گیا تو مِرے جسم و جاں کھلے مجھ پر
چراغ اور تھا کوئی جو مجھ میں جلتا تھا
وہ اپنے گھر میں اجالا نہ کر سکا جاذب
تمام رات جو سورج کے خواب رکھتا تھا

جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment