Thursday 30 July 2020

سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے

رقص کرتی ہوئی لَو سر پہ اٹھا لائی ہے
سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے
ٹیڑھی میڑھی سی لکیروں کو سجا لائی ہے
یہ ہتھیلی بھی مِرے واسطے کیا لائی ہے
میری اوقات ہی کیا تھی؟ کہ سراہا جاتا
مجھ کو مسند پہ بزرگوں کی دعا لائی ہے
میں جو سردار نہ ہوتا تو میں مارا جاتا
میری دستار مِرے سر کو بچا لائی ہے
میں کسی اور کی سنتا ہی کہاں تھا مِرے عشق
مجھ کو اس دشت میں تیری ہی صدا لائی ہے
اب خدا جانتا ہے کس کا مقدر یہ بنے
تیری دہلیز تلک مجھ کو قضا لائی ہے
پہلے وہ حسن کو لفظوں میں بیاں کرتی رہی
بعد ازاں اپنی ہی تصویر اٹھا لائی ہے
خیمۂ خاک میں بیٹھا ہوں میں گم صم احمد
جستجو چاروں طرف مجھ کو گھما لائی ہے

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment