یقین خالق کون و مکان رہتا ہے
مگر کہیں کہیں وہم و گمان رہتا ہے
وہ جس مکان میں پہلے مکین رہتا تھا
اسی مکین میں اب وہ مکان رہتا ہے
جناب منصفِ اعلیٰ! ابھی ذرا رُکیے
میں جب سے خوف کی دیوار پھاند آیا ہوں
مِرے وجود میں امن و امان رہتا ہے
مِری تلاش مجھے دشت میں اٹھا لائی
یہیں کہیں پہ مِرا "خاندان" رہتا ہے
یہ جان کر تو تحیر میں مبتلا ہوا میں
کہ ایک ذرے میں پورا جہان رہتا ہے
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment