Wednesday 29 July 2020

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
اب وہ کچھ اور ہوئے جاتے ہیں
چھلکی" پڑتی ہے نگاہِ ساقی"
دَور پر دَور ہوئے جاتے ہیں
تُو نہ گھبرا کہ تِرے دیوانے
خُوگرِ جور ہوئے جاتے ہیں
عشق کے مسئلہ‌ ہائے سادہ
قابلِ غور ہوئے جاتے ہیں

 حبیب اشعر دہلوی 

No comments:

Post a Comment