Wednesday, 29 July 2020

تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی

تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی
میری سیرت میں اے قیصر خوبی بھی ہے خامی بھی
کتنے عاشق سنبھل گئے ہیں میرا فسانہ سن سن کر
میرے حق میں جیسی بھی ہو کام کی ہے ناکامی بھی
محفل محفل ذکر ہمارا سوچ سمجھ کے کر واعظ
اپنے مخالف بھی ہیں کتنے اور ہیں کتنے حامی بھی
ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے چاند میں کوئی داغ نہ ہو
جس میں ہوگی کچھ بھی خوبی اس میں ہوگی خامی بھی
میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میں آتے ہیں تُلسی بھی اور جامی بھی
یوں تو سکوں کے لمحے قیصر ہوتے ہیں انمول بہت
لیکن اپنے کام آتی ہے دل کی "بے آرامی" بھی

قیصر شمیم

No comments:

Post a Comment