دل کے ہاتھوں کہیں دنیا میں گزارا نہ رہا
"ہم کسی کے نہ رہے، کوئی ہمارا نہ رہا"
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر اے درد! کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج، وہی محرومی
اور تو کیا تھا؟ انہیں اپنا سمجھنے کے سوا
وہ بھی اب عشق کی غیرت کو گوارا نہ رہا
چھن گئی آخری امید بھی دل سے اشعر
یہ سہارا ہے کہ، اب کوئی سہارا نہ رہا
حبیب اشعر دہلوی
No comments:
Post a Comment