Wednesday 29 July 2020

ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا

دل کے ہاتھوں کہیں دنیا میں گزارا نہ رہا
"ہم کسی کے نہ رہے، کوئی ہمارا نہ رہا"
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر اے درد! کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج، وہی محرومی
وہ جو اک تیری طرف سے تھا اشارا، نہ رہا
اور تو کیا تھا؟ انہیں اپنا سمجھنے کے سوا
وہ بھی اب عشق کی غیرت کو گوارا نہ رہا
چھن گئی آخری امید بھی دل سے اشعر
یہ سہارا ہے کہ، اب کوئی سہارا نہ رہا

حبیب اشعر دہلوی

No comments:

Post a Comment