کب دے گی عمر پھر ہمیں مہلت سہیلیو
ہے وصلِ عارضی بھی غنیمت سہیلیو
یہ رنگ روپ حسن جوانی ہے چار دن
لوٹا دو "وقت" کو یہ "امانت" سہیلیو
تم کو یقیں نہیں مگر اک شاعرہ کے خواب
مشرق کی بیٹیاں سدا لائیں جہیز میں
خوابوں کی راکھ، درد کی دولت سہیلیو
پوروں میں انگلیوں کے یہ آنسو سنبھال کے
میں نے لکھا نصابِ محبت سہیلیو
اپنے دوپٹے اپنے گلوں سے لپیٹ کر
ہم نے چکائی زیست کی قیمت سہیلیو
گڑیا مِری جلا کے وہ زردار چل دئیے
مجھ پر گزر گئی ہے قیامت سہیلیو
پہلے گھڑے اٹھائے تو ٹوٹی تھیں چوڑیاں
اب ہاتھ سے حنا ہوئی رخصت سہیلیو
پردیس چل دیا ہے اگر وہ تو آج سے
کاجل کی آنکھ سے ہے عداوت سہیلیو
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment