Friday, 31 July 2020

بچھڑوں نے جب ملنا نہیں پھر عید کیا، تہوار کیا

بچھڑوں نے جب ملنا نہیں، پھر عید کیا، تہوار کیا
پھر دیس کیا پردیس کیا، پھر دشت کیا، گھر بار کیا
ساحل پہ میرا منتظر کوئی نہیں ہے جب تو پھر 
پتوار کیا منجدھار کیا، اِس پار کیا، اُس پار کیا 
وہ جس کے دل سے دُھل گئے احساس کے رشتے سبھی
اس شخص کو معلوم کیا، ہیں پھول کیا، انگار کیا
وہ جس نے دل دیکھا نہیں، وہ درد کیا جانے بھلا 
وہ جس کو ہے سر سے غرض، اُس کے لیے دستار کیا
یہ حسن، یہ رعنائیاں اس دل کے آگے کچھ نہیں
یہ چشم و اَبرو سب غلط، یہ ہونٹ کیا رخسار کیا
تم نے کہا تھا لوٹ کر، دیکھو گے اب نہ عُمر بھر
اس دل نے تم کو کر دیا، پھر راہ کی دیوار کیا
ہم نے کب شکوہ کیا، جب جانتے ہیں اے خدا
تخلیق میں تکلیف ہے، تکلیف سے انکار کیا
جب طے ہے اس نے عمر بھر اب لوٹ کر آنا نہیں
پھر راہ میں ٹھہرے رہیں، ہم صورتِ دیوار کیا
دنیا نے کب سمجھا انہیں، جانا انہیں، پرکھا انہیں
گر تم بھی نہ سمجھے تو پھر، میں کیا مِرے اشعار کیا
یہ تیرا غم یہ چاہتیں، اس درد کی یہ راحتیں
ایماں مِرا ایمان ہیں، ایمان سے انکار کیا

ایمان قیصرانی 

No comments:

Post a Comment