Thursday 30 July 2020

کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے

کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے
الم کی لے پہ، دل گاتا رہا ہے
مبارک ساعتوں کی راہ تکتے
ہمارا وقت گزرا جا رہا ہے
یہ کیسا پھول بھجوایا ہے تم نے
جو پہلے بھی کہیں مہکا رہا ہے
ہمارے دل کو دیمک لگ گئی تھی
اور اب اس سانس کو گُھن کھا رہا ہے
ہم اس گھاٹی میں پہلے بھی گرے تھے
کہانی گو ہمیں "دُہرا" رہا ہے
مِرے حصے کا سب سے قیمتی خواب
پرائی آنکھ میں "سستا" رہا ہے
جبینوں پر لکیریں پڑ گئی ہیں
تھکن کا "نقش" ابھرتا آ رہا ہے
ہم اپنی خواہشوں میں تھک رہے ہیں
پسِ منظر کوئی مُسکا رہا ہے
مِرے بچو! تمہارے قہقہوں سے
دروں سارا "خلا" بھرتا رہا ہے

سیماب ظفر

No comments:

Post a Comment