کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے
الم کی لے پہ، دل گاتا رہا ہے
مبارک ساعتوں کی راہ تکتے
ہمارا وقت گزرا جا رہا ہے
یہ کیسا پھول بھجوایا ہے تم نے
ہمارے دل کو دیمک لگ گئی تھی
اور اب اس سانس کو گُھن کھا رہا ہے
ہم اس گھاٹی میں پہلے بھی گرے تھے
کہانی گو ہمیں "دُہرا" رہا ہے
مِرے حصے کا سب سے قیمتی خواب
پرائی آنکھ میں "سستا" رہا ہے
جبینوں پر لکیریں پڑ گئی ہیں
تھکن کا "نقش" ابھرتا آ رہا ہے
ہم اپنی خواہشوں میں تھک رہے ہیں
پسِ منظر کوئی مُسکا رہا ہے
مِرے بچو! تمہارے قہقہوں سے
دروں سارا "خلا" بھرتا رہا ہے
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment