Friday, 31 July 2020

اے دربدری لوٹ کے گھر آنے لگا ہوں

تھا بامِ فلک، خاک بسر آنے لگا ہوں
جس سمت اشارہ تھا ادھر آنے لگا ہوں
جب تک تری آنکھوں میں نہیں تھا تو نہیں تھا
اب دیکھنے والوں کو نظر آنے لگا ہوں
مت کاٹنا رستہ مِرا بن کر خط امکاں
اے دربدری لوٹ کے گھر آنے لگا ہوں
اک وہم سہی پھر بھی مری نفی ہے دشوار
اے دوست ہر آہٹ پر اگر آنے لگا ہوں
اللہ رے قسمت کہ شہاب ان کی گلی میں
سائے کی طرح شام و سحر آنے لگا ہوں

شہاب صفدر

No comments:

Post a Comment