Friday, 31 July 2020

سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا

سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا
تو جھاگ کی آبرو رہے گی، نہ ریت کا اعتبار ہو گا
خموش رہنا، بدن پہ ہنس ہنس کے اپنی خوشبو کے وار سہنا
چمن سے نکلا تو گل کا یہ عیب، خوبیوں میں شمار ہو گا
لہو کے غنچے کھلے سرِ شاخسارِ مژگاں، تو بات ہو گی
وہ رات ہو گی کہ جس کے چاروں طرف سحر کا حصار ہو گا
حروف جب بھی مسکرا اٹھیں تو وہ شکل پہچانتا ہے قاصر
جو آپ رو رو کے لکھ رہے ہیں یہ خط اسے ناگوار ہو گا

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment