سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا
تو جھاگ کی آبرو رہے گی، نہ ریت کا اعتبار ہو گا
خموش رہنا، بدن پہ ہنس ہنس کے اپنی خوشبو کے وار سہنا
چمن سے نکلا تو گل کا یہ عیب، خوبیوں میں شمار ہو گا
لہو کے غنچے کھلے سرِ شاخسارِ مژگاں، تو بات ہو گی
حروف جب بھی مسکرا اٹھیں تو وہ شکل پہچانتا ہے قاصر
جو آپ رو رو کے لکھ رہے ہیں یہ خط اسے ناگوار ہو گا
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment