Wednesday 29 July 2020

یہ تیرا خیال ہے کہ تو ہے

یہ تیرا خیال ہے، کہ تُو ہے
جو کچھ بھی ہے میری آرزو ہے
دل پہلو میں جل رہا ہے جیسے
یہ کیسی بہار رنگ و بو ہے
تقدیر میں شب لکھی گئی تھی
کہنے کو یہ زلفِ مشک بو ہے
وہ دستِ خزاں سے بچ گیا ہے
جس پھول میں رنگ ہے نہ بو ہے
پتھر کو تراش کر بھی دیکھو
یہ فن بھی خدا کی جستجو ہے
پردیس ہے شہر شہر میرا
اغیار کی جس میں آبرو ہے
تقدیس کے سر میں خاک دیکھی
تہذیب کے ہاتھ میں سبو ہے
میں جینے سے تنگ آ گیا ہوں
اے موت ثبوت دے کہ تُو ہے
دیکھو تو ظفر کہاں ہے یارو
دیوانے کا ذکر کو بہ کو ہے

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment