پہلے چپ چاپ مجھے تکتا رہا دروازہ
جونہی میں جانے لگا بول پڑا دروازہ
آج تک بھول نہیں پایا میں ان تینوں کو
وہ محلہ، وہ گلی،۔ اور تیرا دروازہ
پہلے ہم دونوں بڑی دیر تلک ہنستے رہے
اک یہی بات سمجھ میں نہیں آئی اب تک
کیوں پلٹ آیا تھا میں، جب وہ کھلا دروازہ
میں جہاں دستکیں دیتا رہا، دیوار تھی وہ
اور جسے سمجھا تھا دیوار وہ تھا دروازہ
جانے کس شخص نے دیوار پہ دستک دی ہے
کہ اچانک ہی وہاں پھوٹ پڑا دروازہ
یہ وہ دستک ہے کہ دروازہ جسے جانتا ہے
خودبخود یونہی نہیں کھلنے لگا دروازہ
بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کچھ یاد نہ تھا
اور تو اور، مجھے بھول گیا دروازہ
کئی دروازے نکل آتے تھے دروازے سے
ایسے لگتا ہے کہ اب بانجھ ہوا دروازہ
ایک دن بحث چھڑی موت حقیقت کیا ہے
کچھ نے دیوار کہا، کچھ نے کہا دروازہ
رائیگاں عمر کٹی، کھل نہ سکا رازِ حیات
زندگی ختم ہوئی،۔ تب یہ کھلا دروازہ
خوابِ غفلت میں رہا، توبہ کا آیا نہ خیال
اور جب آنکھ کھلی،۔ بند ہوا دروازہ
ضبط اتنا بھی مِرے بس میں نہیں تھا احمد
حبس جب حد سے بڑھا، توڑ دیا دروازہ
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment