Friday 31 July 2020

ہم ایسے لوگ بھی سچائیوں سے ڈرتے ہیں

یہ کیا کہ درد کی پہنائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم ایسے لوگ بھی سچائیوں سے ڈرتے ہیں
بتا کے حالِ دلِ زار اک زمانے کو
عجیب لوگ ہیں رسوائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تِری خوشبو
تِرے خیال کی پُروائیوں سے ڈرتے ہیں
کسی کے نام پہ خورشید کاٹ لیں گے حیات
بس ایک عمر کی تنہائیوں سے ڈرتے ہیں

خورشید ربانی

No comments:

Post a Comment