Wednesday 29 July 2020

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
گلابوں کی مہک بکھری تو آوازِ شرار آئی
بگولوں نے سفر میں آندھیوں کا آسماں دیکھا
مگر اک فاختہ اپنے شجر تک بے غبار آئی
جسے تُو نے اجالا جان کر چہرے پہ لکھا تھا
وہی شہرت تِری رسوائیوں کے ہمکنار آئی
اندھیروں میں مجھے خود اک ستارہ ڈھونڈنے آیا
کہ شہرِِ بے ہنر سے اک صدائے اعتبار آئی
مِری آنکھوں میں جتنے رنگ تھے سب جل گئے جاذب
مگر وہ مجھ سے ملنے جب بھی آئی، بے قرار آئی

جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment