Wednesday 29 July 2020

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دَم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دَم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
قیامت ہی نہ ہو جاۓ جو پردے سے نکل آؤ
تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے
شکستِ "رنگِ" رخ "آئینۂ" بیتابیٔ دل ہے
ذرا دیکھو تو کیونکر غمزدوں کا دم نکلتا ہے
نگاہِ" التفاتِ "مہر" اور "انداز" دلجوئی"
مگر اک "پہلوئے" بے تابئ "شبنم" نکلتا ہے
صفیؔ کشتہ ہوں نا‌ پرسانیوں کا، اہلِ عالم کی
یہ دیکھوں کون میرا "صاحبِ" ماتم نکلتا ہے

صفی لکھنوی

No comments:

Post a Comment