وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دَم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دَم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
قیامت ہی نہ ہو جاۓ جو پردے سے نکل آؤ
شکستِ "رنگِ" رخ "آئینۂ" بیتابیٔ دل ہے
ذرا دیکھو تو کیونکر غمزدوں کا دم نکلتا ہے
نگاہِ" التفاتِ "مہر" اور "انداز" دلجوئی"
مگر اک "پہلوئے" بے تابئ "شبنم" نکلتا ہے
صفیؔ کشتہ ہوں نا پرسانیوں کا، اہلِ عالم کی
یہ دیکھوں کون میرا "صاحبِ" ماتم نکلتا ہے
صفی لکھنوی
No comments:
Post a Comment