Thursday 30 July 2020

یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے

یہ کیف کیفِ محبت ہے کوئی کیا جانے
چھلک رہے ہیں نگاہوں میں دل کے پیمانے
کہانیوں ہی پہ بنیاد ہے حقیقت کی
حقیقتوں ہی سے پیدا ہوئے ہیں افسانے
نہ اب وہ آتشِ نمرود ہے نہ شعلۂ طور
تِری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے
ہزار تیری محبت نے رہنمائی کی
گزر سکے نہ مقامِ جنوں سے دیوانے
انہی کو حاصلِ یک شہرِ آرزو کہئے
مِری نگاہ میں آباد ہیں جو ویرانے
تجھے خبر بھی ہے اس دورِ خستہ حالی میں
خود اہلِ دل ہیں مذاقِ وفا سے بے گانے
جنوں فریبِ خِرد ہے، خِرد فریبِ نظر
مجھے کہیں کا نہ رکھا مِری تمنا نے

حبیب اشعر دہلوی

No comments:

Post a Comment