Tuesday, 28 July 2020

پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

 پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا

باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے

لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا

دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی

سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا

اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی

پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا

ہاتھوں پہ بہہ رہی ہے لکیروں کی آبجُو

قسمت کا کھیت پھر بھی ہے بنجر پڑا ہوا

یہ خود بھی آسمان کی وسعت میں قید ہے

کیا دیکھتا ہے چاند کو چھت پر پڑا ہوا؟

مارا کسی نے سنگ تو ٹھوکر لگی مجھے

دیکھا تو آسماں تھا، زمیں پر پڑا ہوا 


اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment