پاسِ احساسِ جنوں مانگ رہا تھا مجھ سے
وہ تخیل کا فسوں مانگ رہا تھا مجھ سے
میری نس نس میں اذیت کو سمونے والا
اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے
کل کوئی خواب مری آنکھ کے ساحل پہ کھڑا
اپنے جذبوں میں لہو بخش حرارت کے لیے
میرا قاتل میرا خوں مانگ رہا تھا مجھ سے
میں تو خود کو بھی میسر نہیں اور وہ ایماں
میرے قدموں میں نگوں مانگ رہا تھا مجھ سے
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment