Tuesday 28 July 2020

اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے

پاسِ احساسِ جنوں مانگ رہا تھا مجھ سے
وہ تخیل کا فسوں مانگ رہا تھا مجھ سے
میری نس نس میں اذیت کو سمونے والا
اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے
کل کوئی خواب مری آنکھ کے ساحل پہ کھڑا
شورشِ جذبِ دروں مانگ رہا تھا مجھ سے
اپنے جذبوں میں لہو بخش حرارت کے لیے
میرا قاتل میرا خوں مانگ رہا تھا مجھ سے
میں تو خود کو بھی میسر نہیں اور وہ ایماں
میرے قدموں میں نگوں مانگ رہا تھا مجھ سے

ایمان قیصرانی

No comments:

Post a Comment