Friday 31 July 2020

جہاں ڈبویا وہاں سے ابھر رہا ہوں میں

شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں میں
عجیب وقت سے یارو! گزر رہا ہوں میں
یہ سارا فیض، اسی آتشِ دروں کا ہے
ہوا ہے کتنا اندھیرا، نکھر رہا ہوں میں
نظر نظر میں حکایت مِرے جنوں کی ہے 
صحیفہ بن کے دلوں میں اتر رہا ہوں میں 
مجھے مٹا نہ سکو گے ہزار کوشش سے 
جہاں ڈبویا، وہاں سے ابھر رہا ہوں میں 

جاوید قریشی

No comments:

Post a Comment