کند ذہن رات کی بستی
کند ارادوں کی درانتیاں لیے
تم خودپسندی کی نہر کنارے گھاس کھودتے رہے
اور بجوکا ساری فصلیں کاٹ گیا
نمک لگی کھالوں میں جب بے فکری کے کیڑے پڑے
تمہارے پاؤں زمین کی سختی نہ جھیل سکے
اور جب دلوں میں کوئلے دہکے
تم نے صبر کی دیگ نہ چڑھائی
ایک دوسرے پر نفرتوں کی آگ پھونکی
رات مسلسل شور مچاتی رہی
لیکن روشنیوں کے چور آنکھوں میں کھٹکا رکھ کر
جسموں کی دیوار پھلانگ گئے
تمہیں مردہ آنکھوں میں چراغ جلانا تھا
تم کالے تیل پر ماچس جلاتے رہے
اب دستک دستک مت جھانکو
جن جسموں میں خود کو ڈھونڈتے ہو
ان کی روحیں تم کب کے ہار چکے
جہاں تم آگ رکھتے ہو
کالک بھرے اس دل میں
چاند روشن رکھا کرو
کہ روتے ہوئے بچے پیار مانگتے ہیں
مار نہیں
زاہد امروز
No comments:
Post a Comment