Friday 31 July 2020

کند ذہن رات کی بستی

کند ذہن رات کی بستی

کند ارادوں کی درانتیاں لیے
تم خودپسندی کی نہر کنارے گھاس کھودتے رہے
اور بجوکا ساری فصلیں کاٹ گیا
نمک لگی کھالوں میں جب بے فکری کے کیڑے پڑے
سرما کی سست راتوں میں
تمہارے پاؤں زمین کی سختی نہ جھیل سکے
اور جب دلوں میں کوئلے دہکے
تم نے صبر کی دیگ نہ چڑھائی
ایک دوسرے پر نفرتوں کی آگ پھونکی
رات مسلسل شور مچاتی رہی
لیکن روشنیوں کے چور آنکھوں میں کھٹکا رکھ کر
جسموں کی دیوار پھلانگ گئے
تمہیں مردہ آنکھوں میں چراغ جلانا تھا
تم کالے تیل پر ماچس جلاتے رہے
اب دستک دستک مت جھانکو
جن جسموں میں خود کو ڈھونڈتے ہو
ان کی روحیں تم کب کے ہار چکے
جہاں تم آگ رکھتے ہو
کالک بھرے اس دل میں
چاند روشن رکھا کرو
کہ روتے ہوئے بچے پیار مانگتے ہیں
مار نہیں

زاہد امروز

No comments:

Post a Comment