Friday 31 July 2020

مکمل کس کی ہستی ہے یہ حیوانوں کی بستی ہے

مکمل کس کی ہستی ہے

مکمل کس کی ہستی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
یہاں وحشت برستی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
جلائے گھر ہیں کتنوں کے
کئی گودیں اجاڑی ہیں
یہاں مزدور کے دیکھو
گزر اوقات بھاری ہیں
قیامت سی کئی ہم نے
یہاں شامیں گزاری ہیں
یہاں پر بنتِ حوّا بھی
تو عطرت کو ترستی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
بہا ہے خون نا حق بھی
لُٹی ہیں عصمتیں کتنی
یہ کیونکر بھول بیٹھے ہیں
ملی تھیں عظمتیں کتنی
کیا تھا حق سے اک وعدہ
وہ وعدہ بھول بیٹھے ہیں
ہم اس کے پاس جانے کا
ارادہ بھول بیٹھے ہیں
جبھی ہر آنکھ میں دیکھو
فقط حسرت ٹپکتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
کسی کی حق تلفی کو
ہم اپنا حق سمجھتے ہیں
نہیں میرے سوا کوئی
یہی بے شک سمجھتے ہیں
نہ لے جاؤ گے ساتھ اپنے
کسی کو بانٹنا سیکھو
گناہوں کی اس دنیا سے
کوئی نیکی چھانٹنا سیکھو
بتا کر آئی ہے کب
موت اچانک ہی لپکتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
ستارے توڑ لاتے ہیں
خیالوں میں ہی ہم، لیکن
حقیقت میں دِیا اک بھی
جلا ہم کیوں نہیں سکتے
جو ہیں مظلوم ان کو ہم
نہیں کچھ اور دے سکتے
جنہیں انصاف ملنا تھا
دِلا ہم کیوں نہیں سکتے
یہاں انصاف کی سولی پہ
بس غربت ہی لٹکتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
یہاں وعدے ہی وعدے ہیں
کیا کوئی تکمیل تک پہنچا
خزانہ کیوں غریبوں کا
کسی کی زنبیل تک پہنچا
دکھاۓ خواب تھے جس نے
وہ اب تعطیل تک پہنچا
یہاں پر حق غرباء کا
کہاں ترسیل تک پہنچا
تو ایسے معاشرے میں پھر
خدا کی فوج اترتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭
اٹھو کہ اب ایوانوں کو
ہلانے کا ہے وقت آیا
کہ مظلوموں، مقتولوں کو
حق دلانے کا ہے وقت آیا
رُلایا عمر بھر جس نے
اس کو رُلانے کا ہے وقت آیا
گلے شکوے سب آپس کے
بھُلانے کا ہے وقت آیا
کہ یکجائی کی قوت میں
نصرت خدا کی بھی پنپتی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے

عرفان بزمی

No comments:

Post a Comment