Wednesday, 29 July 2020

صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں

صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں
سو اب ہم سوچنے والے بھی کم کم سوچتے ہیں
کسی سے بات کیا کرنی، ٹھہرنا کس لیے پھر
جہاں پر زخم سے پہلے ہی مرہم سوچتے ہیں
بنائیں نقش تو اس کو مٹا دیتے ہیں خود ہی
اگر ہم سوچتے بھی ہیں تو برہم سوچتے ہیں
جو سچ پوچھو تو ہم کو بھی خبر اس کی نہیں ہے
جو دنیا ڈھونڈتے ہیں ہم جو عالم سوچتے ہیں
یہ ہم کیا دیکھتے اور سوچتے رہتے ہیں آخر
کہ پھر ہم دیکھتے ہیں کچھ نہ کچھ ہم سوچتے ہیں
جگہ یہ شاذ، لے کے دم نہیں ہے سوچنے کی
یہاں تو ہر قدم پر کھینچ کے دم سوچتے ہیں

زکریا شاذ

No comments:

Post a Comment