صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں
سو اب ہم سوچنے والے بھی کم کم سوچتے ہیں
کسی سے بات کیا کرنی، ٹھہرنا کس لیے پھر
جہاں پر زخم سے پہلے ہی مرہم سوچتے ہیں
بنائیں نقش تو اس کو مٹا دیتے ہیں خود ہی
جو سچ پوچھو تو ہم کو بھی خبر اس کی نہیں ہے
جو دنیا ڈھونڈتے ہیں ہم جو عالم سوچتے ہیں
یہ ہم کیا دیکھتے اور سوچتے رہتے ہیں آخر
کہ پھر ہم دیکھتے ہیں کچھ نہ کچھ ہم سوچتے ہیں
جگہ یہ شاذ، لے کے دم نہیں ہے سوچنے کی
یہاں تو ہر قدم پر کھینچ کے دم سوچتے ہیں
زکریا شاذ
No comments:
Post a Comment