Tuesday, 7 July 2020

کبھی کبھی میں خدا کو خدا سمجھتا تھا

ہر ایک زخم کو اس کی رضا سمجھتا تھا
کبھی کبھی میں خدا کو خدا سمجھتا تھا
اگا لیے ہیں شجر گھر میں کچھ اداسی کے
میں شاعری تِری آب و ہوا سمجھتا تھا
سو اس نے زخم بھی سب سے جدا دیا ہے مجھے
وہ شخص میں جسے سب سے جدا سمجھتا تھا
تمہیں خبر ہے "دِیا" کس لیے بجھایا گیا
یہ "شہر" اس کو مِرا "ہمنوا" سمجھتا تھا
تِری نظر سے "گِرا" ہوں تو "یاد" آیا ہے
میں اپنے آپ کو کتنا "بڑا" سمجھتا تھا
بچھڑنے والے میں سو عیب تھے مگر فرہاد
وہ "بد دماغ" مِرا "مسئلہ" سمجھتا تھا

احمد فرہاد

No comments:

Post a Comment