ہر ایک زخم کو اس کی رضا سمجھتا تھا
کبھی کبھی میں خدا کو خدا سمجھتا تھا
اگا لیے ہیں شجر گھر میں کچھ اداسی کے
میں شاعری تِری آب و ہوا سمجھتا تھا
سو اس نے زخم بھی سب سے جدا دیا ہے مجھے
تمہیں خبر ہے "دِیا" کس لیے بجھایا گیا
یہ "شہر" اس کو مِرا "ہمنوا" سمجھتا تھا
تِری نظر سے "گِرا" ہوں تو "یاد" آیا ہے
میں اپنے آپ کو کتنا "بڑا" سمجھتا تھا
بچھڑنے والے میں سو عیب تھے مگر فرہاد
وہ "بد دماغ" مِرا "مسئلہ" سمجھتا تھا
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment