راہوں میں ٹھہر جاؤں، منزل سے گزر جاؤں
کچھ اور بھٹک لوں میں، حسرت میں نہ مر جاؤں
ہر "راہ" کا عالم اور، ہر "گام" پہ سو سو رنگ
سوچا کہ "اِدھر" جاؤں، چاہا کہ "اُدھر" جاؤں
کچھ اور کھٹک تھی تب، اب اور کسک سی ہے
ویرانئ "منزل" کا "افسانہ" ہی کہہ ڈالوں
کوئی تو "سبق" سیکھے، کچھ "کام" تو کر جاؤں
میں "گردِ سفر" بہتر، میں "خاک" سہی راحیل
وہ بھی تو "اڑائے" گا، خود کیوں نہ بکھر جاؤں
راحیل فاروق
No comments:
Post a Comment