اپنے لیے ایک نظم
سن او صوفی
سات وقت کے عادی مجرم
کیا تُو اپنے حُجرے ہی میں بیٹھا بیٹھا مر جائے گا؟
ایسی کی تیسی ہو ایسی مستی کی
آنکھ اٹھا کر دیکھ تری دہلیز پہ لاشیں آئیں ہیں
سن او صوفی
دستک کی خاموشی سن
آدھے پونے جسموں کی گردن میں اٹکی چیخیں سن
ان جسموں کی چیخیں سن
جن کو مرتے دیکھنے والی آنکھ بھی اندھی
جن کی آہیں سننے والے کان بھی بہرے
اور یہ تیرا رقص، تماشا
انسانوں کے سر کے منکے
تیری تسبیح کے منکوں سے کیا سستے ہیں؟
لیکن تجھ کو ان ساری باتوں سے کیا؟
تُو گدڑی میں لِپٹا رہ
ڈھول کی تھاپ پہ ڈال دھمال
کون مرا ہے کون جیا ہے؟ مٹی ڈال
تُو اپنی مستی میں گم، بس تسبیح کے دانے گِن
مست قلندر
لاشیں میری، میں لاشوں کا
تُو بس بیٹھ کے ہُو ہُو کر
یونس تحسین
No comments:
Post a Comment