خطرے کی گھنٹیوں سے بھاگے ہوئے
خواب کی دستکوں سے بھاگے ہوئے
اپنی گلیوں میں آ کے مارے گئے
اجنبی سرحدوں سے بھاگے ہوئے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں نئے چہرے
سرخ ساڑھی کے پیچ و خم میں رہے
ان گنت پگڑیوں سے بھاگے ہوئے
نشے کی گھاٹیوں میں کھوئے رہے
زندگی کے دکھوں سے بھاگے ہوئے
اس کی صحرا مزاجیوں کے سبب
ہم کھلے پانیوں سے بھاگے ہوئے
شاہ زادی! تُو جنگ🤼 چاہتی ہے
اور ہم لشکروں سے بھاگے ہوئے
راز احتشام
No comments:
Post a Comment