اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے
مِری سمجھ سے تو بالاتر ہے، یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے؟
"جو تُو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہو گی تو اور ہوں گے"
کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں! یہ محاورہ ہے
ہم آج قوسِ قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں
وہ اپنے اپنے تمام ساتھی، تمام محبوب لے کے آئیں
تو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے، ہمیں بھی اذنِ مباہلہ ہے
ارے او جاؤ، یوں سر نہ کھاؤ، ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟
نہ وہ ذہین و فطین یارو! نہ وہ حسیں ہے، نہ شاعرہ ہے
فریحہ نقوی
No comments:
Post a Comment