اے مِری ذات کے سکوں، آ جا
تھم نہ جائے کہیں جنوں، آ جا
رات سے ایک سوچ میں گم ہوں
کس بہانے تجھے کہوں، آ جا
ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا
یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟
ہو چلا وہ بھی نیلگوں، آ جا
چاند تاروں سے کب تلک آخر
تیری باتیں کیا کروں، آ جا
اپنی وحشت سے خوف آتا ہے
کب سے ویراں ہے اندروں، آ جا
اس سے پہلے کہ میں اذیت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں، آ جا
دیکھ ، میں یاد کر رہی ہوں تجھے
پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں، آ جا
فریحہ نقوی
No comments:
Post a Comment