مجھے یہ حال کافی ہے
مجھے
یعنی محبت کو بھلا اس بات سے کیا ہے
کہ تم کیا تھے؟
کہاں، کس سے ملے تھے؟
تمہاری سرمگیں آنکھوں نے کس کے خواب دیکھے تھے؟
نہیں
مجھ کو
محبت کو، کسی ماضی کے لمحے سے کوئی مطلب نہیں رکھنا
محبت "ہے" کا صیغہ ہے
یہ "تھا" اور "تھی" نہیں ہوتی
یہ ہوتی ہے
سدا ہونے کو ہوتی ہے
یہ وہ مٹی ہے جو پانی بھگوتی ہے
سو میں
یعنی محبت، تم سے کیوں پوچھے
کہ تم کس غم سے گھائل تھے؟
محبت پوچھتی کب ہے؟
کہاں سے آ رہے ہو؟ کون ہو؟ اور کس سے ملنا ہے؟
سوالوں میں نہیں پڑتی
یہ استقبال کرتی ہے
تھکے ہارے ہووں کو اپنا جیون دان کرتی ہے
گلے ملتی ہے اور آنکھوں پہ اپنا اسم پڑھتی ہے
تو پھر جیسا بھی ماضی ہو
کوئی ماضی نہیں رہتا
سو میں بھی لمحۂ موجود میں تم کو سنبھالوں گی
تمہاری مسکراہٹ سے ذرا پیچھے
جو اندیکھی خراشیں ہیں
اگر میں بھر سکوں ان کو
تمہاری گفتگو میں سسکیوں کے ان کہے وقفے
ہنسی میں گر بدل پاؤں
تو پھر مانوں
کہ ہاں مجھ کو محبت ہے
مجھے
یعنی محبت کو، کسی ماضی سے کیا لینا؟
مجھے یہ "حال" کافی ہے
علی زریون
No comments:
Post a Comment