جیسا دنیا میں تھا ویسا ہوں تہہِ خاک بھی میں
بس تماشا تھا تماشا ہوں تہہِ خاک بھی میں
میں نے جو آگ جلائی تھی سخن میں اپنے
دیکھ اس آگ میں جلتا ہوں تہہِ خاک بھی میں
دشتِ جاں میں بھی تھا تصویرِ تمنا کی مثال
اپنے ہی شور میں لپٹا ہوا نغمہ تھا کبھی
اپنی تنہائی میں تنہا ہوں تہہِ خاک بھی میں
آسماں! ابر کی چادر نہیں درکار مجھے
اپنے احوال میں دریا ہوں تہہِ خاک بھی میں
نام وہ جس سے رضی میری سماعت تھی نہال
وِرد اس نام کا کرتا ہوں تہہِ خاک بھی میں
رضی حیدر
No comments:
Post a Comment