اپنے ہی سامنے دیوار ہو اِک عمر سے تم
کیسی ذِلت میں گرفتار ہو اک عمر سے تم
جس کو تعبیر سمجھتے ہو، وہ تعبیر نہیں
عرصۂ خواب میں بیدار ہو اک عمر سے تم
اپنے احوال میں خوش رہنے کی تدبیر کرو
خود بھی رہتے ہو شب و روز پریشاں خود سے
اور سب کے لیے دشوار ہو اک عمر سے تم
ہر تعلق ہے یہاں اپنی ضرورت کا اسیر
کس تعلق کے طلبگار ہو اک عمر سے تم
راہ میں بھی کسے فرصت ہے کہ کرے تم سے کلام
گھر میں بھی نقش بہ دیوار ہو اک عمر سے تم
روز لکھتے ہو غزل عالمِ حسرت میں رضی
پھر بھی آسودۂ اظہار ہو اک عمر سے تم
رضی حیدر
No comments:
Post a Comment