گزری جو رہگزر میں اسے در گزر کیا
اور پھر یہ تذکرہ کبھی جا کر نہ گھر کیا
چشمِ سلیقہ ساز! تُو خاموش ہی رہی
رخصت پہ تیری دل نے بہت شور و شر کیا
آزردگانِ ہجر کی وحشت عجیب ہے
بے برگ و بار جسم تھا محرومِ اعتبار
سرگرمئ صبا نے شجر کو شجر کیا
عشق، مرحلہ تو سفر در سفر کا ہے
اب دیکھنا ہے کس نے کہاں تک سفر کیا
ایسے کشادہ دست کہاں کے تھے ہم رضی
شاید "لحاظِ" زحمتِ "دریوزہ گر" کیا
رضی حیدر
No comments:
Post a Comment