Monday, 3 August 2020

میں وہ دریا ہوں جو کوزے میں اتارا ہوا ہوں

کھِل سکا ہوں نہ کسی آنکھ کا تارا ہوا ہوں
کیا کہوں پھینکا گیا ہوں، کہ اتارا ہوا ہوں
وہ بھی میں تھا جسے پلکوں پہ بٹھایا تُو نے
یہ بھی میں ہوں جو تِرے ہجر کا مارا ہوآ ہوں
وہ جو اب میرے خد و خال پہ ہنستا ہے بہت
میں اسی شخص کے ہاتھوں سے سنوارا ہوا ہوں
خاک ہو کر بھی زمیں پر تجھے ڈھونڈا میں نے
گاہے گاہے تِری خاطر میں ستارا ہوا ہوں
تُو وہ موسم ہے جو مشکل سے میسر آئے
میں وہ لمحہ ہوں جو فرصت سے گزارا ہوا ہوں
مٹھی بھر ریت سمجھ کے نظر انداز نہ کر
میں وہ دریا ہوں جو کوزے میں اتارا ہوا ہوں

فرخ عدیل

No comments:

Post a Comment