کسی جمال نہ وحشت کا شاخسانہ ہو
کسی سے عشق اگر ہو تو والہانہ ہو
بھلے ہو کم یا زیادہ کوئی طلب ہی نہیں
میں چاہتی ہوں کہ برکت کا آب و دانہ ہو
کچھ اور کب مجھے درکار ہے زمانے سے
ہے چاند سے بھی گزارش بس اتنی دیر رکے
کہ غم کی آنکھ لگے، درد کچھ پرانا ہو
وہ کیا کسی سے روابط نباہ پائے گا؟
کہ جس کا خود سے تعلق بھی حاسدانہ ہو
میں دل نکال کے دے دوں اگر پرکھنا ہے
میں جاں ہتھیلی پہ لاؤں جو آزمانا ہو
سو اس طرح ہو کہ دھڑکن کے سبز گیتوں کو
کبھی تو یاد، کبھی شعر تازیانہ ہو
تو کیا ضروری ہے اہلِ زمیں کہ آدم کا؟
زمین سے جو بھی تعلق ہو غاصبانہ ہو
کھڑی ہے آج بھی چوکھٹ پہ منتظر ایماں
یہ در کھلا ہی ملے گا کبھی جو آنا ہو
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment