Sunday, 2 August 2020

آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں

آنکھوں میں تِرا ہجر بسانے کے نہیں ہیں
یہ دن تو سنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں
تا عمر گوارا ہیں یہ مخمل سے اندھیرے
آنکھوں سے تِرے ہاتھ ہٹانے کے نہیں ہیں
طائف ہو کہ ڈیرہ ہو، یا ملتان، کہ روہی
ہم خانہ بدوش ایک ٹھکانے کے نہیں ہیں
کٹ جائیں نہ ان سے کہیں ماؤں کے کلیجے
یہ اشک چھپانے ہیں، دکھانے کے نہیں ہیں
جس دشت میں کھویا تھا مِرا سرخ کجاوہ
اس دشت میں ہم لوٹ کے جانے کے نہیں ہیں 
جو شعر تِرے غم کی ریاضت سے ملے ہیں
وہ شعر زمانے کو سنانے کے نہیں ہیں 
یہ سچ کہ نبھائی تیری بے دام غلامی
سچ یہ بھی کہ اب دام میں آنے کے نہیں ہیں
کچھ چوم کے ماتھوں پہ سجانے کو ہیں ایماں
سب داغ تو دامن پہ سجانے کے نہیں ہیں

ایمان قیصرانی

No comments:

Post a Comment