چاہ تھی حسرت تھی آرزو تھی بہت
اک زمانہ تھا کہ ان کی جستجو تھی بہت
مدت ہوئی گفت و شنید کر نہ سکے ہم
گئے وقتوں میں باہم گفتگو تھی بہت
ہو گئے آج اس نظر میں بے توقیر
یہ ستارے جو فلک پر شام کو آ جاتے ہیں
تیرے آنچل سے شباہت ہوبہو تھی بہت
ہیں معطر سی فضائیں اک عجب ہی ڈھنگ سے
تیری خوشبو میرے ہمدم! چار سو تھی بہت
عرفان بزمی
No comments:
Post a Comment