Saturday, 1 August 2020

چاہ تھی حسرت تھی آرزو تھی بہت

چاہ تھی حسرت تھی آرزو تھی بہت
اک زمانہ تھا کہ ان کی جستجو تھی بہت
مدت ہوئی گفت و شنید کر نہ سکے ہم
گئے وقتوں میں باہم گفتگو تھی بہت
ہو گئے آج اس نظر میں بے توقیر
کبھی ان نظروں میں اپنی آبرو تھی بہت
یہ ستارے جو فلک پر شام کو آ جاتے ہیں
تیرے آنچل سے شباہت ہوبہو تھی بہت
ہیں معطر سی فضائیں اک عجب ہی ڈھنگ سے
تیری خوشبو میرے ہمدم! چار سو تھی بہت

عرفان بزمی

No comments:

Post a Comment