Saturday, 1 August 2020

یہ کس نے لوٹا ہے آشیاں کو

یہ کس نے گلشن پہ قہر ڈھایا، یہ کس نے لوٹا ہے آشیاں کو
بہار ماتم کناں کلی پر، زمین روئے ہے آسماں کو
ابھی بھی موقع ہے رقصِ موجِ جنوں کر لے سکوں کر لے
ذرا سا ساون نے چال بدلی یہ مور ترسے گا بارشاں کو
یہ لوگ واضح دلیلِ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ بنے ہوئے ہیں
یہ دورِ لا يَرْجِعُونَ کیونکر سمجھ سکے گا مری فغاں کو
اے مِرے دوست! مِرے دشمنِ جاں، خیر تو ہے
تُو مِرے پاس، مِرے ساتھ یہاں، خیر تو ہے؟
بات قصداً انہیں آدھی سی سنائی میں نے
اب وہ پوچھیں گے کہ کب، کون، کہاں خیر تو ہے

نیلوفر افضل

No comments:

Post a Comment