یہ کس نے گلشن پہ قہر ڈھایا، یہ کس نے لوٹا ہے آشیاں کو
بہار ماتم کناں کلی پر، زمین روئے ہے آسماں کو
ابھی بھی موقع ہے رقصِ موجِ جنوں کر لے سکوں کر لے
ذرا سا ساون نے چال بدلی یہ مور ترسے گا بارشاں کو
یہ لوگ واضح دلیلِ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ بنے ہوئے ہیں
اے مِرے دوست! مِرے دشمنِ جاں، خیر تو ہے
تُو مِرے پاس، مِرے ساتھ یہاں، خیر تو ہے؟
بات قصداً انہیں آدھی سی سنائی میں نے
اب وہ پوچھیں گے کہ کب، کون، کہاں خیر تو ہے
نیلوفر افضل
No comments:
Post a Comment