جا نکلے عجب دشت میں اوراق پلٹ کر، اطراف سے کٹ کر
اور خواب سے ابھر ے ہیں بدن خاک سے اٹ کر، بیٹھے ہیں سمٹ کر
ہم اس کو ستارہ تو نہیں جانتے لیکن، ہر چند ہے ممکن
ٹکڑا سا گرے صحن میں افلاک سے کٹ کر، نظروں سے نمٹ کر
بے اسم بھی ہوتا ہے طلسم ایسا کہیں پر؟ موقع ہی یہیں پر
اجداد کی سینچی ہوئی اینٹوں کی عمارت، اور سبز عبارت
بِک پائے نہ ٹِک پائے گی میراث میں بٹ کر، تعظیم میں گھٹ کر
اب ایسے خرابے میں کہاں نکلئے گھر سے، کچھ دن ہوئے سر سے
اک ابر کا ٹکڑا ہے کہ چھٹتا نہیں چھٹ کر، سب رہ گئے کٹ کر
اترے تھے خیالوں کے پرند اتنے دنوں بعد، اور نیند کا صیاد
سر پر سے اڑا لے گیا پل بھر میں جھپٹ کر، لکھئے کبھی ڈٹ کر
نیلوفر افضل
No comments:
Post a Comment