Saturday, 1 August 2020

صحرا کی ویرانی بھرنے آئی تھی

صحرا کی ویرانی بھرنے آئی تھی
اور کوئی دیوانی بھرنے آئی تھی
اک دن میری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
میرے دل کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پر
اک دوشیزہ پانی بھرنے آئی تھی
میری غزل کے بے معنی سے حرفوں میں
تیری یاد معانی بھرنے آئی تھی
تیرے بدن کی خوشبو میری سانسوں میں
کوئی شام سہانی بھرنے آئی تھی
میرے خوابوں کے دامن میں اے خورشید
خوشبو، رات کی رانی بھرنے آئی تھی

خورشید ربانی

No comments:

Post a Comment