صحرا کی ویرانی بھرنے آئی تھی
اور کوئی دیوانی بھرنے آئی تھی
اک دن میری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
میرے دل کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پر
میری غزل کے بے معنی سے حرفوں میں
تیری یاد معانی بھرنے آئی تھی
تیرے بدن کی خوشبو میری سانسوں میں
کوئی شام سہانی بھرنے آئی تھی
میرے خوابوں کے دامن میں اے خورشید
خوشبو، رات کی رانی بھرنے آئی تھی
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment