تِری محبت کی راجدھانی کا کیا کروں میں
جو تُو نہیں ہے تو زندگانی کا کیا کروں میں
کئی زمانوں سے تیری جانب رواں ہوں لیکن
قدم قدم رنجِ رائیگانی کا کیا کروں میں
نہیں ہے کوئی بھی میرے ہمراہ جانے والا
گر ان اندھیروں کے زخم تُو نے بھرے نہیں تو
افق افق تیری حکمرانی کا کیا کروں میں
چراغِ امید جل اٹھا ہے مگر مِرے دل
سیاہ تر داغِ بدگمانی کا کیا کروں میں
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment