Saturday, 1 August 2020

میرے وجود میں وہ اس طرح سمو جائے

میرے وجود میں وہ اس طرح سمو جائے
جو میرے پاس ہے سب کچھ اسی کا ہو جائے
ابھی تو آنکھ کے اندر ہے تیرتا آنسو
ٹپک پڑا تو نہ گھر ہی کہیں ڈبو جائے
خوشی ملے بھی تو یہ دل اداس رہتا ہے
بس ایک خوف سا رہتا ہے کچھ نہ ہو جائے
تمہیں یقیں ہے کہ منزل ہے دو ہی قدموں پر
مجھے یہ ڈر ہے کہیں راستہ نہ کھو جائے
تمام قافلہ اب جاگتا ہے اس ڈر سے
کہیں امیر نہ غفلت کی نیند سو جائے
کبھی تو خواب بھی تعبیر پا سکیں حیدر
یہ دائروں کا سفر جو تمام ہو جائے

جلیل حیدر

No comments:

Post a Comment