میرے وجود میں وہ اس طرح سمو جائے
جو میرے پاس ہے سب کچھ اسی کا ہو جائے
ابھی تو آنکھ کے اندر ہے تیرتا آنسو
ٹپک پڑا تو نہ گھر ہی کہیں ڈبو جائے
خوشی ملے بھی تو یہ دل اداس رہتا ہے
تمہیں یقیں ہے کہ منزل ہے دو ہی قدموں پر
مجھے یہ ڈر ہے کہیں راستہ نہ کھو جائے
تمام قافلہ اب جاگتا ہے اس ڈر سے
کہیں امیر نہ غفلت کی نیند سو جائے
کبھی تو خواب بھی تعبیر پا سکیں حیدر
یہ دائروں کا سفر جو تمام ہو جائے
جلیل حیدر
No comments:
Post a Comment