محسوس یہ ہوتا ہے زمانے کے لیے تھے
ورنہ یہ مراسم تو نبھانے کے لیے تھے
اک عمر کی تحقیق سے یہ راز کھلا ہے
ہم لوگ تو بس یونہی فسانے کے لیے تھے
تم شام ڈھلے کیسے نکل پڑتے ہو گھر سے
تم صاحبِ دنیا ہو، یہاں کیسے رکے ہو؟؟
یہ دشت، یہ صحرا تو دِوانے کے لیے تھے
کب شعر و سخن تھے مِرے اجداد کا ورثہ
یہ سارے جتن تجھ کو بھلانے کے لیے تھے
صفدر سلیم سیال
No comments:
Post a Comment