اس کو رخصت کر دیا اک دشمنِ جانی کے ساتھ
ان کو جاتے دیکھتا ہوں کتنی حیرانی کے ساتھ
ہو نہیں سکتا کسی صورت تِرا میرا نباہ
رہ بھی سکتی ہے بھلا آتش کہیں پانی کے ساتھ
جان کی بازی لگا کر میں نے پایا تھا اسے
اس کو کھو سکتا ہوں کیا میں اتنی آسانی کے ساتھ
چند بانسوں کے سہارے روک رکھا تھا جسے
وہ شجر بھی ڈھ گیا کل رات طغیانی کے ساتھ
جب میں پہلے آیا تھا اس گھر کے آنگن میں سلیم
ایک پودا اور بھی تھا رات کی رانی کے ساتھ
ایوب سلیم
No comments:
Post a Comment